’’ ایک زمانے کا ذکر ہے کہ کریمیا میں ایک خان رہتا تھا، اس کا نام موسو لیما العصرب تھا۔ اس کا بیٹا تو لیک الگالا کے نام سے پکارا جاتا تھا۔‘‘ ان تمہیدی الفاظ سے اندھے تاتاری فقیر نے درخت کے خاکستری تنے سے پیٹھ لگا کر عہد رفتہ کی داستان سنانی شروع کی۔ اس داستان گو فقیر کے اردگرد تاتاریوں کا ایک ہجوم جمع ہو گیا۔ جو شوخ رنگ کے کپڑے اور کامدار ٹوپیاں پہنے ہوئے تھے۔ یہ لوگ حلقہ بنا کران بکھرے ہوئے پتھروں پر بیٹھ گئے جو کسی قدیم خان کے محل سے جدا ہو کر منتشر ہو رہے تھے۔ شام کا وقت تھا اور سورج آہستہ آہستہ سمندر میں غروب ہو رہا تھا۔ اس کی عنابی کرنیں کھنڈرات کے آس پاس اُگے ہوئے درختوں کے سبز پتوں کو چیرتی ہوئی درخشاں دھبوں کی صورت میں کائی سے ڈھکے ہوئے پتھروں اور بل کھاتی ہوئی ہری بیلوں پر پڑ رہی تھیں ہوا بوڑھے درختوں کی شاخوں میں ترنم ریزیاں کر رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پانی کی غیر مرئی ندیاں فضا میں بہہ رہی ہیں۔ اندھے فقیر کی آواز دھیمی اور لرزاں تھی، اس کے پتھرائے ہوئے چہرے کی جھریوں سے سوائے آسودگی کے اور کچھ مترشح نہ تھا۔ لفظ جو اسے رٹے ہوئے تھے یکے بعد دیگرے بڑی روانی سے نکل رہے تھے۔ یہ سامعین کی آنکھوں کے سامنے ازمنہ رفتہ کی ایک تصویر کھینچ رہے تھے۔ ’’خان گو ضعیف العمر تھا مگر اس کے حرم میں بے شمار عورتیں تھیں۔ یہ بوڑھے خان سے بہت محبت کرتی تھیں وہ اس لئے اس کی محبت میں گرفتار تھیں کہ اس کی رگوں میں شباب کی قوت ابھی برقرار تھی اور اس کے بو سے اور اس کی دلنوازیاں محبت کی تپش سے معمور ہوتی تھیں۔ عورتیں صرف اسی مرد سے الفت کریں گی جس کا تلطف قوی ہو، خواہ اس کے بال سپید ہی کیوں نہ ہو رہے ہوں۔ یا اس کا چہرہ جھریوں سے بد نما ہی کیوں نہ ہو رہا ہو.... حسن قوت میں مضمر ہے نہ کہ گداز جسم اور گلاب آسا گالوں میں۔ یہ سب عورتیں خان سے محبت کرتی تھیں ، مگر اس کی منظور نظر صرف ایک قیدی لڑکی تھی جو نبیر کے ڈھلوانوں کی پلی ہوئی نازنین تھی۔ گو اس کے حرم میں مختلف ممالک کی تین سو عورتیں تھیں ، مگر وہ ان کی نسبت سے ایک وارفتگی کے ساتھ محبت کرتا تھا۔ اس کے حرم کی ہر ایک عورت بہار کے نکھرے ہوئے پھول کی طرح خوبصورت تھی۔ خان ان کے لئے بڑی بڑی دور سے بھنا ہوا گوشت اور مٹھائیاں منگواتا اور وہ اکثر اپنی منظور نظر کو سک لڑکی کو برج میں بلوایا کرتا، جہاں سے سمندر کا نظارہ ہو سکتا تھا۔ اس جگہ وہ اس کے لئے ایسے تمام سامان مہیا کرتا جو ایک عورت کی زندگی کو مسرور بنا سکتے ہیں۔ مختلف النوع مٹھائیاں ، رنگ برنگ کے ریشمی کپڑے، سونے کے زیور، ہر قسم کے جواہرات‘ موسیقی، درو دراز ملکوں سے منگوائے ہوئے نایاب پرندے.... اور اس پر فریفتہ شدہ خان کی ولولہ خیز اور پر جوش دلنوازیاں غرض کہ اس کی تفریح کے لئے ہر قسم کی چیز موجود تھی۔ اس برج میں خان دیگر سرگرمیوں سے علیحدہ ہو کر کئی کئی روز اپنی منظور نظر کے ساتھ مشغول عیش رہتا۔ وہ اس خیال سے مطمئن تھا کہ اس کا بیٹا اس کی اس زمانے کی حاصل کی ہوئی عظمت و شہرت کو بر قرار رکھے گا جب وہ روس کی ڈھلوانوں میں بھوکے بھیڑئیے کی طرح چھاپے مارا کرتا تھا۔ جب کہ وہ ہر چھاپے کے بعد ہمیشہ غنیمت کے بیش بہا مال و دولت،نئی عورتوں ، اور نئی شان سے، اپنے پیچھے خون، جلی ہوئی راکھ،اور ہیبت کے نشانات چھوڑ کر ظفر مندانہ واپس لوٹا کرتا تھا۔ ایک دفعہ جب خان کا بیٹا الگالا روس میں چھاپہ مارنے کے بعد واپس آیا تو اس کے اعزاز میں بڑے جشن منعقد کئے گئے۔ اس جزیرے کے تمام مرزا اور سب بیگ اس تقریب میں شریک ہوئے۔ قسم قسم کی کھیلیں کی گئیں ، طرح طرح کی دعوتیں اڑائی گئیں تیر اندازوں نے قیدیوں کی آنکھوں میں تیر گاڑ کر اپنے بازوؤں کی قوت کا مظاہرہ کیا۔ پھر الگالا کی صحت کے جام پی کر اس کی شجاعت کے گیت گائے گئے اور اس کے حریفوں کی ہیبت کا تذکرہ کیا گیا۔ اپنے بیٹے کی شجاعت کا ذکر سن کر بوڑھے خان کو بہت خوشی حاصل ہوئی کیونکہ اب اس کی موت کے بعد اس کی حاصل کردہ عظمت مضبوط ہاتھوں کے سپرد ہونے والی تھی۔ وہ بہت مسرور تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے لڑکے سے اپنی محبت کی پختگی ظاہر کرنے کے لئے اس سے تمام مرزاؤں اور بیگوں کے سامنے جام ہاتھ میں لے کر کہا’’ میرے پیارے لڑکے!.... خدا بزرگ و برتر ہے اور اس کا رسول با عظمت ہے۔‘‘ یہ سن کر تمام لوگوں نے بلند آواز میں ہم آہنگ ہو کر خدا اور اس کے رسول کی حمد گائی۔ خان پھر گویا ہوا:۔ ’’ خدا بزرگ و برتر ہے!.... یہ اس کی عنایت ہے کہ میری زندگی میں اس نے میرا شباب میرے لڑکے میں زندہ کر دیا ہے۔ میں اپنی ان نحیف آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ جب سورج کی شعاعیں ان سے اوجھل ہو جائیں گی اور زمین میں مدفون میرے دل کو کیڑے چاٹ رہے ہوں گے، تو میں اپنے لڑکے کے قالب میں منتقل ہو کر نئے سرے سے زندگی بسر کروں گا۔ خدا بڑا ہے اور محمد اس کا سچا رسول ہے!.... میرا لڑکا میری خواہش کے مطابق ہے، اس کے بازو مضبوط اور قوی ہیں۔ اس کا دل جوان ہے، اس کا ضمیر صاف ہے.... تو لیک میرے لڑکے، بول، جس چیز کی تو خواہش کرے گا وہ تجھے فوراً مل جائے گی!‘‘ بوڑھے خان کی آواز کی گونج ابھی مدھم ہونے ہی پائی تھی کہ تو لیک الگالا اٹھا، اس کی آنکھیں سمندر کے نیم شبی نظارے کی طرح سیاہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں میں پلے ہوئے شاہین کی آنکھوں کی مانند شعلہ بار تھیں۔ ’’ اے بادشاہ اور باپ، مجھے وہ روسی لڑکی دے دے!‘‘ اس نے کہا خان ایک لحظے کے لئے جو اس کے دل پر طاری شدہ لرزے کو دبانے کے لئے ضروری تھا، خاموش رہنے کے بعد بلند اور مضبوط آواز میں بولا’’ جا اسے لے جا.... دعوت ختم ہونے پر تو اس کا مالک ہے۔‘‘ خطر پسند تو لیک الگالا کا چہرہ فرط مسرت سے سرخ ہو گیا، اس کی عقاب ایسی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اپنے قد کو پوری لمبائی تک بلند کرتے ہوئے اس نے اپنے باپ سے کہا’’ اے باپ! مجھے معلوم ہے کہ تو مجھے کیا دے رہا ہے.... مجھے معلوم ہے میں تیرا غلام ہوں .... میری رگوں میں خون کا ہر قطرہ تیری خاطر بہنے کے لئے تیار ہے.... اگر میری بیس زندگیاں ہوں تومیں بیس ہی دفعہ خود کو تجھ پر نثار کرنے کے لئے تیار ہوں !‘‘ ’’ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ‘‘ یہ کہتے ہوئے خان کا سپید بالوں والا سر جسے بڑے بڑے شجاعانہ کارناموں اور کئی سالوں کی جمع شدہ حشمتوں نے بڑا وقار بخشا تھا، اس کی چھاتی پر جھک گیا۔ جشن ختم ہونے پر باپ بیٹا محل سے نکل کر حرم کی طرف روانہ ہوئے۔ دونوں ایک دوسرے کے پہلو میں بڑی خاموشی سے چل رہے تھے۔ رات اندھیری تھی، چاند اور ستارے نظر آ رہے تھے۔ بادلوں نے آسمان پر موٹی چا در سی ڈال رکھی تھی۔ ایک عرصے تک وہ خاموش چلتے رہے، آخر کار خان نے مہر سکوت کو توڑا اور اپنے لڑکے سے کہا: ’’ روز بروز میری زندگی ختم ہو رہی ہے.... میرے بوڑھے دل کی دھڑکن اب رفتہ رفتہ کم ہوتی جاتی ہے۔ میرے سینے میں اب وہ پہلی سی آگ نہیں سلگتی میری زندگی کی روشنی اور حرارت اس کوسک لڑکی کی جوشیلی محبت تھی۔ تو لیک مجھے بتائ، مجھے بتاؤ ، کیا یہ لڑکی واقعی تمہارے لئے اشد ضروری ہے؟.... میری بیویوں میں سے ایک سو لے لو.... سب لے لو، مگر اس کو میرے پاس رہنے دو!‘‘ اس کا بیٹا آہ بھر کر خاموش رہا۔ ’’ میری زندگی کے اور کتنے دن باقی ہیں ؟ مجھے صرف چند گھڑیاں اس زمین پر اور زندہ رہنا ہے۔ یہ روسی لڑکی میری زندگی کی واحد اور آخری خوشی ہے۔ وہ مجھے اچھی طرح سمجھتی ہے، محبت کرتی ہے.... اگر وہ میرے پاس نہ ہوئی تو پھر مجھ بوڑھے سے اور کون محبت کرے گا؟.... کون ہے جو محبت کرے گا؟.... ان میں ایسی کوئی بھی نہیں ، ایک بھی نہیں ، میرے پیارے بچے!‘‘ تولیک نے کچھ نہ کہا۔ میں یہ جانتے ہوئے کیونکر زندہ رہ سکوں گا، کہ تم اس کو اپنے بازوؤں میں لئے ہوئے ہو اور وہ تمہیں چوم رہی ہے!.... ایک عورت کے معاملے میں ہم یقیناً باپ اور بیٹا نہیں ہیں ، ہم صرف مرد ہیں اور بس!.... آہ، کاش کہ میرے جسم کے تمام زخموں کے منہ کھل جائیں اور ان سے میرے خون کا آخری قطرہ بھی بہہ جائے.... کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں یہ سب کچھ دیکھنے اور سہنے سے پہلے ہی مر گیا ہوتا!!‘‘ اس کا بیٹا خاموش رہا۔ حتیٰ کہ وہ حرم سرائے کے دروازے پر پہنچ گئے۔ یہاں وہ دونوں خاموشی میں ایک عرصے تک اپنے سر لٹکائے کھڑے رہے۔ ان کے گردو پیش تاریکی ہی تاریکی تھی۔ آسمان پر بادل ایک دوسرے کا تعاقب کر رہے تھے۔ ہوا درختوں کی ٹہنیوں کو جھولا جھلا رہی تھی۔ گویا وہ ان کو لوریاں دے رہی ہے۔ ’’ ابا‘ میں ایک عرصے سے اس کی محبت میں گرفتار ہوں ‘‘ تولیک الگالا نے اپنے باپ سے کہا۔ ’’ یہ مجھے معلوم ہے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ تجھ پر التفات نہیں کرتی‘‘ خان نے جواب دیا۔ ’’ مگر میرا دل پارہ پارہ ہو جاتا ہے، جب میں اس کا خیال کرتا ہوں ‘‘ ’’ جانتے ہو میرا نحیف دل اس وقت کس جذبے سے معمور ہے؟‘‘ وہ کچھ عرصے کے لئے پھر خاموش ہو گئے۔ تولیک نے آہ بھری اور کہا: ’’ عقلمند ملاں نے ٹھیک کہا تھا: عورت ہمیشہ مرد کی تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔ اگر وہ حسین ہے، تو اس کا حسن دوسرے لوگوں کے دلوں میں اس کا اپنا بنا لینے کی ترغیب پیدا کرتا ہے۔ اس طرح اس کا خاوند رشک و حسد کی آگ میں جلتا ہے۔ اگر وہ بد شکل ہے ، تو اس کا شوہر دوسروں پر حسد کھاتا ہے۔ اگر یہ نہ حسین ہے اور نہ بد شکل تو مرد اس کو خوبصورت تصور کرتا ہے۔ لیکن فوراً ہی یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اس کا یہ انداز غلط ہے۔ یہ مغموم ہو جاتا ہے.... یعنی ایک بار پھر یہی عورت اس کی اذیت کا باعث ہوتی ہے!‘‘ ’’ میرے بچے، دانشمندی دل کے درد کی دوا نہیں ہے!‘‘ خان نے جواب دیا۔ ’’ تو پھر آؤ، ہم اس کو قتل کر دیں ‘‘ یہ سن کر خان نے اپنا سر اونچا کیا۔ اور غمگین آنکھوں سے اپنے لڑکے کی طرف دیکھا۔ ’’ ہم اس کو کیوں نہ قتل ہی کریں ‘‘ تولیک نے اپنے الفاظ دہرائے۔ خان نے ایک لحظے کے لئے غور کیا، پھر گنگناتے ہوئے کہا: ’’ تو اس کی اور میری نسبت خود سے زیادہ پیار رکھتا ہے!‘‘ ’’ یہ درست ہے، مگر اے باپ، تو بھی ایسا ہی کرتا ہے۔‘‘ وہ پھر خاموش ہو گئے۔ ’’ وہ واقعی میں خود سے زیادہ پیار رکھتا ہوں !‘‘ خان نے غمگین لہجے میں کہا۔ غم نے اسے بچہ بنا دیا تھا۔ ’’ تو کیا وہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ وہ قتل کر دی جائے گی؟‘‘ ’’ اور میں زیادہ دیر فرقت برداشت نہیں کر سکتا۔ یا وہ مجھے دے دو یا پھر میرے دل کو چیر کر باہر نکال پھینکو!‘‘ خان چپ رہا۔ ’’ ہمیں چٹانوں پر سے اسے سمندر میں دھکیل دینا چاہئے‘‘ ’’ ہمیں چٹانوں پر سے اسے سمندر میں دھکیل دینا چاہئے‘‘ خان نے اپنے بیٹے کے لفظ غیر ارادی طور پر دہرائے۔ گویا وہ ان کی ایک گونج تھے۔ یہ گفتگو کرنے کے بعد وہ دونوں حرم سرائے میں گئے۔ یہاں وہ کوسک لڑکی اپنے پُر تکلف قالین پر محو خواب تھی۔ وہ دونوں بڑھے اور دیر تک خوابیدہ حسن پر نگاہیں جمائے کھڑے رہے خان کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے جواس کی سپید داڑھی پر گر کر موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ اس کا بیٹا شعلہ نما آنکھوں سے لڑکی طرف دیکھتے ہوئے اپنے شباب کے مچلتے ہوئے جوش کو دانت پیسنے کے عمل سے دبانے کی کوشش کر رہا تھا.... وہ جاگی، اس کے نرم و نازک چہرے پر! جو طلوع آفتاب کے منظر کی طرح دلکش تھا، اس کی آنکھیں پھول کی طرح کھلیں۔ اس نے تولیک کو نہ دیکھا۔ اور اپنے لعلیں ہونٹ، خان کی طرف بڑھا دیئے۔ ’’ میرے شاہین، ان کو چومو!‘‘ ’’ اٹھو،پیاری، اور ہمارے ساتھ چلو!‘‘ خان نے آہستگی کے لہجے میں کہا: یہ سن کر اس نے تولیک کی طرف دیکھا، پھر فوراً خان کی آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی کا مطلب اس پر واضح ہو گیا اور وہ سب معاملہ سمجھ گئی۔ ’’ میں چلنے کو تیار ہوں ‘‘ اس نے اپنی نقرئی آواز میں کہا‘‘ میں تیار ہوں ،.... کیا یہی فیصلہ ہوا ہے، تاکہ نہ میں تمہاری ہوں گی اور نہ اس کی؟.... آہ اس فیصلے کے لئے کس قدر مضبوط دلوں کی ضرورت تھی.... میں تیار ہوں ، چلو!‘‘ لڑکی نازک جسم تھی۔ تھوڑی دور چل کر وہ تھک گئی، مگر یہ تھکاوٹ اس کے لئے باعث فخر تھی اور وہ اسے ظاہر نہ کرنا چاہتی تھی۔ جب خان کے لڑکے نے دیکھا کہ وہ بہت آہستہ آہستہ چل رہی ہے۔ تو اس نے اس سے کہا’’ کیا تم خائف ہو؟‘‘ یہ سن کر اس کے دل پر چوٹ لگی، اس کی آنکھیں چمک اٹھیں اور اس نے مجبور اپنے زخمی پیر دکھا دیئے۔ ’’آؤ ، میں تم کو اٹھا لوں‘‘ یہ کہتے ہوئے تولیک نے لڑکی کی طرف اپنے بازو پھیلائے مگر اس نے پہلو بدل کر اپنی بانہیں اپنے بوڑھے شاہین کی گردن میں حمائل کر دیں۔ خان نے اسے پرکی طرح اٹھا لیا اور چلنے لگا۔ وہ اس کے بازوؤں میں لپٹی ہوئی درختوں کی ٹہنیوں اور پتوں کو ہاتھ سے ہٹاتی جاتی تھی کہ کہیں وہ اسکے محبوب کی آنکھوں کو زخمی نہ کر دیں۔ وہ ایک عرصے تک چلتے رہے، آخر کار سمندر کی لہروں کی دھیمی آواز آنے لگی۔ اس وقت تولیک جو ان کے پیچھے آ رہا تھا۔ آگے بڑھا اور اپنے باپ سے کہا: مجھے آگے چلنے دو۔ ورنہ میری خواہش ہو گی کہ تیری گردن میں اپنا خنجر گھونپ دوں !‘‘ ’’ چلو ،آگے بڑھ جاؤ.... تیسری خواہش کا پورا ہونا یہ نہ ہونا اللہ کے اختیار میں ہے وہ تجھے معاف کرے.... میں تجھے معاف کرتا ہوں اس لئے کہ مجھے معلوم ہے محبت کرنا کسے کہتے ہیں !‘‘ آخر کار سمندر ان کے سامنے تھا۔ چٹان جس پر کہ وہ کھڑے تھے اس کے نیچے، بہت دور گہرائیاں تھیں ، اتھاہ اور تاریک! لہریں ، نیچے، چٹانوں کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر دھیما راگ الاپ رہی تھیں .... نیچے، جہاں غضب کی تاریکی خوف اور سردی تھی۔ خان نے اپنی محبوبہ کو آخری بار چوما اور کہا’’ پیاری الوداع!‘‘ ’’ الوداع‘‘ تولیک نے جھک کر کہا۔ لڑکی نے نیچے کی طرف دیکھا، جہاں موجیں گا رہی تھیں۔ اور خوف کے مارے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیچھے کو ہٹ گئی۔ ’’ مجھے نیچے گرا دو‘‘ اس نے باپ بیٹے سے مخاطب ہو کر کہا۔ بیٹے نے اس کی طرف ہاتھ بڑھائے اور کچھ بڑبڑایا مگر خان نے آگے بڑھ کر اس کو اپنی چھاتی کے ساتھ زور سے بھینچا اور اس کے لبوں کے بوسے لے کر اسے ہاتھوں پر اٹھا کر چٹان پر سے نیچے سمندر میں گرا دیا۔ نیچے موجیں پتھروں کے ساتھ ٹکر ا ٹکرا کر گا رہی تھیں۔ ان کا شور اس قدر بلند تھا کہ ان دونوں میں سے کسی کو بھی معلوم نہ ہوا کہ وہ کب پانی کی سطح پر گری، کسی قسم کی آواز یا چیخ ان کے کانوں تک نہ پہونچی۔ خان چٹان پر انتہائی غم کی حالت میں بیٹھ گیا اور خاموشی سے نیچے گہرائیوں میں دیکھنا شروع کر دیا، دھندلے بالوں میں ملفوف تھا اور لہروں کے تھپیڑوں کی آواز گونج رہی تھی، ہوا تیزی سے گذرتی ہوئی اس کی سپید داڑھی کے بالوں کو منتشر کر رہی تھی۔ تو لیک اس کے قریب خاموش، بے جان مجسمے کی طرح ہاتھوں سے اپنا منہ چھپائے کھڑا تھا، وقت گذرتا گیا، رفتہ رفتہ آسمان پر بادل چھاتے گئے، بادل کے یہ ٹکڑے بوڑھے خان کے خیالات کی طرح تاریک اور وزنی تھے، جو چٹان کی چوٹی پر خاموش بیٹھا تھا۔ ’’ ابا،آؤ چلیں !‘‘ ’’ ذرا ٹھیرو!‘‘ خان نے بڑی دھیمی آواز میں کہا جیسے کہ وہ کچھ سن رہا ہے۔ اس طرح اور وقت گذر گیا۔ لہریں نیچے پتھروں کے ساتھ ٹکراتی رہیں اور ہوا چٹانوں اور درختوں پر سے گذرتی ہوئی چلاتی رہی۔ ’’ ابا، آؤ چلیں !‘‘ ’’ ابھی ذرا ٹھیرو!‘‘ تولیک الگالا نے بہت مرتبہ اپنے باپ سے جانے کو کہا مگر وہ اس جگہ سے اٹھ کر جانا نہ چاہتا تھا،جہاں اس نے اپنے آخری ایام کی واحد مسرت کو کھو دیا تھا۔ مگر ہر چیز کی انتہا ہوتی ہے؟.... آخر کار وہ اٹھا۔ اب اس کے چہرے سے عزم و فخر کے آثار مترشح تھے۔ اس نے کھو کھلی آواز میں اپنے لڑکے سے کہا’’ چلو آؤ۔‘‘ انہوں نے گھر کا رخ کیا مگر چند قدموں کے فاصلے پر ہی خان ٹھیر گیا۔ ’’ مگر میں کیوں جا رہا ہوں .... کدھر جا رہا ہوں ؟‘‘ اس نے اپنے لڑکے سے پوچھا’’ میں اب کیوں زندہ رہوں ، جب میری زندگی اس کی ذات سے وابستہ تھی؟.... میں عمر رسیدہ ہوں ، مجھ سے کوئی محبت نہ کرے گا.... اور جب کوئی محبت کرنے والا نہ ہو تو زندہ رہنا احمقانہ فعل ہے!‘‘ ’’ ابا تیرے پاس دولت و ثروت ہے!‘‘ ’’ مجھے اس کے لبوں کا صرف ایک بوسہ دے دو اور یہ دولت و ثروت تم لے سکتے ہو۔ یہ چیزیں سب مردہ ہو چکی ہیں ، صرف عورت کی محبت ہی زندہ رہتی ہے۔ اگر کسی مرد کی زندگی عورت کی محبت سے خالی ہے، تو وہ زندگی ہی نہیں .... وہ مرد ایک فقیر ہے اور رحم کے قابل ہے۔ الوداع، میرے لڑکے!خدا کی عنایات ہمیشہ تیرے شامل حال رہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے خان چٹان کی طرح واپس مڑا۔ ’’ ابا، ابا،’’ تولیک چلاتا رہا مگر وہ اپنے باپ کو نہ روک سکا.... وہ شخص کچھ نہ سنے گا جس پر موت مسکرا رہی ہو۔ اس کے علاوہ زندگی کی گم کردہ مسرت کو کون سے لفظ واپس لا سکتے ہیں۔ ’’ مجھے جانے دو!‘‘ ’’ میرے اللہ!‘‘ ’’ وہ سب کچھ جانتا ہے....‘‘ تیز قدم اٹھاتے ہوئے خان چٹان کے کنارے پر پہنچا اور نیچے کود پڑا اس کا بیٹا اس کو روک نہ سکا کیوں کہ سب کچھ ایک لمحے ہی میں ہو گیا۔ اب کی بار پھر سمندر میں کسی قسم کی آواز نہ آئی.... صرف لہروں کے تھپیڑوں کی آواز اور ہوا کے جنگلی گیتوں کی صدا آ رہی تھی۔ تولیک الگالا۔ ایک عرصے تک نیچے کی طرف دیکھتا رہا۔ آخرش اس نے بلند آواز میں کہا! اسے اللہ مجھے بھی ایسا ہی مضبوط دل عطا کر!‘‘ یہ کہہ کر وہ رات کی تاریکی میں چلا گیا.... یہ ہے جس طرح خان مرا اور اس کے بعد تو لیگ الگالا جانشین ہوا۔ .........